Skip to main content

پاکستان: لڑکیاں تعلیم سے محروم

رکاوٹوں میں کم سرمایہ کاری، فیسیں ، اور امتیازی سلوک شامل ہے

لندن ۔ہیومن رائٹس واچ نے آج جاری شدہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں لڑکیوں کے بڑے تناسب کو تعلیم دینے میں ناکام رہی ہے۔

صفحات پر مشتمل رپورٹ’’( میں اپنی بیٹی کوروٹی دوں یا تعلیم )پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں ‘‘ بہت سی لڑکیاں اس وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ ملک میںسر کاری سکولوں کی قلت ہے پاکستان میں کل آبادی (200 ملین ہے جس میں سے 5.22ملیں بچے سکول نہیں جاتے ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمرکی لڑکیاں سکول نہیں جاتی ۔ جب کہ لڑکوںکی یہ شرح 21فیصد ہے نویں جماعت تک صرف 13 فیصد لڑکیاں پڑھتی ہیں۔

’’پاکستانی حکومت کی بچوں کو تعلیم دینے میں ناکامی سے لاکھوں لڑکیوں پر تباہ کن اثرات ہوئے ہیں ’’ HRWکے عورتوں کے حقوق کے ڈائریکٹر Liesl Gerntholtzنے کہا ’’ بہت سی لڑکیاں جن کاانٹرویو کیا گیا پڑھنے کے لیے بیتاب ہیں لیکن وہ تعلیم کے بغیر بڑی ہورہی ہیں ۔ تعلیم انہیں مستقبل میں حق انتخاب دیتی ۔

HRWنے اس رپورٹ کے لیے 209 افراد کے انٹرویو کئے ان میں زیادہ تعداد ان لڑکیوں کی تھی جو کبھی سکول نہ گئی ہیں نہ اپنی تعلیم مکمل کرنے میں ناکام رہی اور ان کے گھر والوں کے انٹرویو کیے گئے یہ انٹرویو پاکستان کے چاروں صوبوں : بلوچستان ، کے پی کے ، سندھ اور پنجاب میں کئے گئے HRW نے لڑکیوں کے والدین اساتذہ ، ماہرین اور سر گرم کارکنان کے انٹرویو بھی کئے اور سکولوں میں بھی گئے۔

گورنمنٹ گرلز ثانوی سکول لیاری جو کہ کراچی کے نواح میں واقع ہے میں طالبات صبح کی ورزش کرتے ہوئے۔ © 2018 Insiya Syed for Human Rights Watch
HRW کے مطابق لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے میںباقی عوام کے علاوہ حکومت کی سکولوں میں کم سرمایہ کاری سکولوں کی کمی ۔ سکولوں کی زیادہ فیس اور دیگر اخراجات ، جسمانی سزائیں اور لازمی تعلیم کا عدم نفاذ شامل ہیں HRWنے سرکاری سکولوں اور کم لاگت کے نجی سکول میں پست معیار تعلیم نجی سکولوں میں سرکاری قواعد و ضوابط کا عدم نفاذ اور رشوت کو پایا۔

تعلیمی نظام میں ان عوامل کے علاوہ لڑکیوں کو بیرونی وجوہات بشمول چائلڈ لیبر صنفی امتیاز کم عمری کی شادی ، جنسی ہراسگی عدم تحفظ اور سکولوں پر حملے تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

حکومت پاکستان میں مستقل طور پر تعلیم میں سرمایہ کاری سفارش کردہ انٹر نیشنل سٹینڈر کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ جیسا کہ 2017 میں مجموعی طور پرملکی سرمایہ کاری کا 8.2 فیصد تعلیم پر خرچ ہورہا ہے جو کہ کم از کم 4سے 6فیصد سفارش کردہ معیادسے کافی نیچے ہے ، حکومت تعلیم پر بہت کم سرمایہ کاری کر رہی ہے سرکاری سکولوں کی تعداد پاکستان کے بڑے شہروں میں بہت کم ہے اس وجہ سے بہت سے بچے مناسب وقت میں محفوظ طریقے سے پیدل سکول نہیں پہنچ پاتے۔ دیہات میں صورتحال اس سے بھی بری ہے وہاں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوںکے سکول بہت زیادہ ہیں ۔

30سالہ عائشہ اپنے شوہر اور چھ بچوں کے ساتھ پشاور کے علاقے میں رہتی ہے جہاں قریب ترین سرکاری سکول جو لڑکوں کے لیے نرسری سے دسویں جماعت تک ہے ۔ صرف پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے ۔جبکہ قریب ترین لڑکیوں کا سکول 30منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے اور وہ بھی صرف پانچویں تک ہے۔ عائشہ کی بیٹی کو سکول چھوڑنا پڑا جب وہ صرف نو سال کی تھی کیونکہ اس کے والدین کو پیدل سکول جانے پر تحفظات تھے۔

’’ حتیٰ کہ والدین جو خودپڑھے لکھے نہیں وہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں سمجھتے ہیں ‘‘ ان کا مستقبل سکول جانے میں ہے ۔ لیکن حکومت نے ان خاندانوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے ‘‘ گرینتھ ہالز (نے کہا پاکستان کا مستقبل بچوں کو پڑھانے میں ہے خاص طورپر لڑکیوں کو۔‘‘

جونہی بچے عمر میں بڑے ہوتے ہیں ، خاص طورپر لڑکیاں ، ان کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں  ثانوی سکولوں کی تعداد پرائمری سکولوں کی نسبت کم ہے جبکہ کالجوں میں گنجائش بہت ہی کم ہوتی ہے خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ۔ بہت سی لڑکیاں جو ایک سکول میں سب سے بڑی کلاس کی تعلیم مکمل کرتی ہیں ۔ تو وہ دوسرے سکول میں اگلی جماعت میں داخلہ نہیں لے سکتی ۔ نظام تعلیم میں سرکاری سکول کی مناسب تعداد نہ ہونے کی وجہ سے نجی سکولوں کی بھر مارہوگئی ہے جن میں سے اکثر کم لاگت سکول ہیں ۔ لیکن غریب خاندان ٹیوشن فیس ادا نہیں کر سکتے اورحکومت کی ان سکولوں میں منظم کرنے اور نگرانی کرنےمیں ناکامی کی وجہ سے ان کا معیار تعلیم بہت ناقص ہے۔

پاکستان کے نئے منتخب وزیراعظم عمران خان کی سیاسی پارٹی کے منشور میں نظام تعلیم بشمول تعلیم نسواں میں بڑی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا ہے ۔’’ لڑکیوں کے سکولوں کا قیام اور ان کی اعلیٰ درجے تک لے جانا ہماری ترجیح ہو گی اور ہم لڑکیوں اور خواتین کو وظائف بھی مہیا کریں گے تاکہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں ۔‘‘ اس میں یہ بھی عہد کیا گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا پرو گرام تعلیمی ایجنڈا لاگو کریں گے جس میں ہم پرائمری ثانوی مڈل پیشہ ورانہ اور سپیشل ایجوکیشن میںاصلاحات لائیں گے ۔

’’ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ تعلیم اصلاحات کی از حد ضروری ہیں اور ہم اس کو اپنی ترجیح بنائیں گے خاص طور پر لڑکیوں کے لیے اور مثبت قدم اٹھاتے ہوئے ۔‘Liesl Gerntholtz نے کہا ’’ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے تحقیق مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کی نشاندہی میں حکومت کی مدد کرے گی اور پاکستان میں ہر لڑکی کو ایک روشن مستقبل دے گی ۔

لوگوں کے انٹرویو ز سے منتخب کئے گئے اقتباسات

سرمایہ کاری کی کمی اور سرکاری سکولوں کی قلت

اقتباسات

28سالہ عاکفہ جو تین بچوں کی ماں ہے جن کی عمریں 17-8-10سال ہیں نے کہا ’’ میں اپنے بچوں کو سکول بھیج دیتی اگر وہاں کوئی سرکاری سکول ہوتا‘‘ اس کا خاندان ملتان کے قریب ایک گائوں سے تین سال پہلے کام کے سلسلے میں کراچی منتقل ہوا اور ایک ایسے علاقے میں رہائش اختیار کی جہاں صرف نجی سکول موجود تھے جن کا خرچہ ان کا خاندان برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ کوئی سرکاری سکول ان کی پہنچ میں نہ تھا۔

’’میرے والدین نے کہا کہ اگر تم پڑھائی میں اتنی ہی دلچسپی رکھتی ہو تو تم پیدل جا سکتی وہ ، اور جو لوگ چاہتے تھے وہ چلے گئے ۔میرے لیے سکول کافی دور تھا اورراستہ سنسان اور ویران تھا اور دو تین لڑکیاں پہلے ہی اس علاقہ میں اغوا ہوچکی تھی ۔ لیکن اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھے پڑھنا چاہیے لہٰذامیں نے اپنے والدین کو قائل کیا اور دوستوں کے ساتھ سکول پیدل جانا شروع کر دیا ۔‘‘

20سالہ آصفہ نے پنجاب کی رہنے والی ہے اس نے کہا کہ اس نے دیر سے یعنی9 یا 10 سال کی عمر میں سکول جانا شروع کیا کیونکہ سکول کا پیدل راستہ اس کے گائوں سے 45 منٹ کا تھا ، سکول آٹھویں جماعت تک لہٰذا اس کے بعد وہ اپنی بہن کے پاس جو ایک قصبہ میں رہتی تھی منتقل ہو گئی جہا ں نویں اور دسویں جماعت کی تعلیم دستیاب تھی ۔

پنجاب میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی ایک NGOکی سربراہ نے کہا ’’ ریاست نے کبھی بھی تعلیم کو سنجیدگی سے نہ لیا ہے ۔مناسب وسائل ریاست کی جانب سے تعلیم کے لیے مختص نہ کیے گئے ہیں ۔ اصل مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا ہے ۔ تعلیم کبھی بھی ان کی ترجیح نہ رہی ہے اور وہ اس کے لیے بجٹ مختص نہیں کرتے۔‘‘

’’ ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کا بچہ تعلیم حاصل کرے لیکن ریاست کی طرف سے یہ سہولیات مہیا کرنے کا نظام موجود نہ ہے ‘‘ سربراہ کمیونٹی تنظیم کراچی۔

’’ اگر آپ کے پاس 10سکول لڑکوں اور صرف 5سکول لڑکیوں کے لیے

 ہیں ‘‘ ماہر تعلیم خیبر پختونخوا ۔

غربت اور تعلیم کے اخراجات

30سالہ رخسانہ جو تین بچوں کی ماں ہ اور جس کا خاوند بیماری کی وجہ سے کبھی کبھار کام کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ وہ کراچی میں سکول کی فیس اور متعلقہ اخراجات ادا کرنے کے قابل نہ تھی نے کہا ’’حکومت غریبوں کی مدد نہیں کرتی ۔ ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہیںدے سکتے کیونکہ ہم اپنی خوراک بھی پوری نہیں کر سکتے۔

ظریفہ جوکہ بلوچستان میںپانچ سکول نہ جانے والے بچوں کی ماں نے کہا ’’ سکولوں میں ہو سکتا ہے کہ تعلیم مفت ہو لیکن وہاں دوسری چیزو ں کے مطالبات ہوتے ہیں ۔ نوٹ بس ، سٹیشنری ہر روز ایک نیا خرچہ صرف سکول بیگ کی قیمت500روپے(76.4امریکی ڈالر ) ہے ہر روز کچھ نہ کچھ مطالبات ہوتے ہیں۔

38سالہ حلیمہ جوکراچی میںرہتی ہے اور اس کی پانچ بیٹیاں ہیں جن کی عمریں تیرہ سے انیس سال تک ہیں ۔ان میں سے کسی نے بھی ایک یادو سال سے زیادہ نہیں پڑھا  اس کاخاوند جیونگم فیکٹری میں کام کرتا ہے ۔’’ میں چاہتی تھی کہ میری بیٹیاں تعلیم حاصل کریں لیکن میں غربت کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی ۔ میرے خاوند کی تنخواہ 12000روپے(114 امریکی ڈالر ) ماہانہ ہے مہینے کے آخر میں پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔

معیار اور بد عنوانی کے متعلقہ تحفظات

’’سترہ سالہ حکیمہ جو کراچی کی رہائشی نے پرائمری سکولوں کے بارے میں بتایا اور بہت دفعہ اساتذہ وقت پر نہیں آتے اور کبھی کبھار تو بالکل میں سکول نہیں آتے ۔ ہم سکول جاتے ہیں ۔ بیٹھتے ہیں اورواپس آجاتے ہیں‘‘۔

کراچی میں کمیونٹی کی بنیاد پر قائم تنظیم کے ڈائریکٹر نے بیان کیا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہر کسی کوسرکاری تدریسی عہدہ خریدنے کے لیے رقم ادا کرنا پڑتی ہے ۔ یہ ایک اچھا سودا ہے ۔ آپ کی تنخواہ ملتی ہے یہ ایک سرمایہ کاری ہے ۔ لیکن اس کا اثر تعلیم کے معیار پڑتا ہے ، کیونکہ کوئی تدریسی کام نہیں ہوتا۔

پنجاب کے ایک نجی سکول کے پرنسپل نے سکولوں کی حکومتی نگرانی کی بابت کہا۔

’’ سال میں ایک یا دو دفعہ انسپکٹر ز سکول بغیر اطلاع دئیے آتے ہیں ۔وہ نصف گھنٹہ کے لیے آتے ہیں ، وہ چائے پیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی تواضع کی جائے آپ کو انہیں خوش کرنا پڑتا ہے وگرنہ وہ کہیں گے کہ آپ کا سکول اچھا نہ ہے ایک دفعہ میں نے انسپکٹر کو انتظار کروایا جس پر وہ پاگل ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے چلا گیا میں بری رپورٹ لکھوں گا ۔ میرا تھی کارکن اس کے پاس گئے اور اسے 25000روپے (238امریکی ڈالر ) دئیے اور اس نے ہمیں اچھی رپورٹ دی ۔‘‘

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.