Skip to main content

اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیاں نسلی امتیاز اور جبر کے جرا‏ئم کے مترادف ہیں

انسانیت کے خلاف جرائم کے سامنے آنے پر فلسطینیوں پر جبر کے خاتمے کی جدوجہد شروع ہو جانی چاہیے

 

(یروشلم، 27 اپریل 2021)۔ ہیومن رائٹس واچ نے آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکام نسلی امتیاز اور جبر  کی پالیسی اختیار کر کے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے حقائق اسرائیلی حکومت کی وسیع تر پالیسی پر مبنی ہے جس کے ذریعے وہ فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلّط کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ علاقے میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کر رہی ہے۔

''حد پار ہو گئی ہے: اسرائیلی حکام اور نسلی امتیاز اور جبر کے جرائم'' کے عنوان سے 213 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ دریائے اࣳردن اور بحیرہ روم کے درمیانی علاقے میں تقریباً مساوی تعداد میں آباد دو برادریوں پر حکمرانی کرنے والی واحد اتھارٹی اسرائیلی حکومت ہے جو یہودی اسرائیلیوں کے ساتھ ترجیحی سلوک جبکہ فلسطینیوں کے ساتھ جبر کی پالیسی روا رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر مقبوضہ علاقوں میں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایگذیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے کہا ہے کہ ''نامور آوازیں کئی برسوں سے تنبیہ کر رہی تھیں کہ فلسطین پر اسرائیلی کی حکمرانی کا طریقہ کار تبدیل نہ ہوا تو وہ گھڑی دور نہیں جب علاقے پر نسلی امتیاز کا راج ہو گا۔'' یہ مفصّل تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی حکام کے طرزؚ حکمرانی کی بدولت وہ گھڑی آن پہنچی ہے،  اور آجکل حکام نسلی تفریق اور جبر کا رویہ اپنا کر انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہو رہے ہیں۔

نسلی امتیاز اور  جبر کی حقیقت سے مشرقی یروشلم اور غزہ سمیت مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے کی قانونی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہيں آئی، نہ ہی قبضے کی اصلی حقیقت میں کوئی ردوبدل ہوا ہے۔

بنیادی طور پر جنوبی افریقہ کے تناظر میں مستعمل نسلی امتیاز آجکل ایک عالمگیر قانونی اصطلاح بن چکی ہے۔ سنگین ادارہ جاتی امتیاز اور جبر اور نسلی امتیاز کی ممانعت عالمی قانون کی اساس ہے۔ نسلی امتیاز کے جرم کی ممانعت و سزا کے عالمی معاہدے 1973 اور عالمی فوجداری انصاف (آئی سی سی) کے  قانونؚ روم 1998 کی رࣳو سے نسلی امتیاز انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ تین عناصر پر مشتمل ہے:

  1. کسی ایک نسلی گروہ کی دوسرے گروہ پر تسلّط برقرار رکھنے کی نیت؛
  2. پسے ہوئے گروہ پر غالب گروہ کا منظّم تسلط؛
  3. غیرانسانی اقدامات۔

آجکل کی صورتحال میں نسلی گروہ کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے  نہ صرف جینیاتی خصوصیات کی بنیاد پر ہونے والے سلوک کو سامنے رکھنا چاہیے بلکہ نسل اور قومی یا لسانی پس منظر کی بنیاد پر ہونے والے سلوک کو بھی مدؚنظر رکھنا چاہیے۔ اؚس کی وضاحت ہر قسم کے نسلی امتیاز کے خاتمے کے عالمی معاہدے میں دی گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے نسل کے اؚس وسیع تر مفہوم کا اطلاق کیا ہے۔

 ریاستی جبر جیسے انسانیت کے خلاف جرم جس کی قانونؚؚ روم اور رواجی عالمی قانون میں تعریف دی گئی ہے، سے مراد یہ ہے کہ امتیازی سلوک کے ارادے سے کسی نسلی، لسانی، یا دیگر قسم کے گروہ کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے۔

ہیومن رائٹس واچ کے خیال میں، مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی حکومت کی پالیسی میں جرائم کے عناصر یکجا نظر آ رہے  ہیں۔ اؚس پالیسی کا مقصد پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کا تسلط برقرار رکھنا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں یہ پالیسی فلسطینیوں کے خلاف منظّم جبر اور غیرانسانی اقدامات کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ 

کئی برسوں سے انسانی حقوق کی صورتحال کو قلمبند کرنے کے تجربے، اور حکومتی منصوبوں کی دستاویزات، عہدیداروں کے بیانات اور دیگر ذرائع کے بغور جائزے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں کے لیے اختیار کردہ پالیسیوں و اقدامات کا اࣳنہی علاقوں میں مقیم یہودی اسرائیلیوں کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں و اقدامات کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے جولائی 2020 میں اسرائیلی حکومت کو اؚن معاملات پر اپنی آراء سے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا مگر اࣳن کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام نے یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کو گنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکام نے ایسی پالیساں اختیار کی ہیں جن کا مقصد خود اࣳن کے بقول، ''فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرے'' کو کم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یروشلم میں شہر کے مغربی اور مقبوضہ مشرقی علاقوں سمیت میونسپلٹی کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کا مقصد ''شہر میں یہودی اکثریت کو برقرار رکھنا ہے، اور یہاں تک کہ منصوبے میں آبادی کے ایسے تناسب کا ذکر بھی ہے جو اسرائیلی حکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی حکام تسلّط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظّم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔  اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سینکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثراخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جبکہ اࣳسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظّم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔  

اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں اؚن میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالیوں اور غیرانسانی افعال کا حصّہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔ اؚن میں درج ذیل مظالم شامل ہیں: غزہ کی بندش اور اجازت ناموں سے انکار کی شکل میں نقل و حمل پر وسیع تر پابندیاں، مغربی کنارے میں ایک تہائی سے زائد اراضی کی ضبطی، مغربی کنارے میں انتہائی کٹھن حالات جنہوں نے ہزاروں فسلطینیوں کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا، سینکڑوں فلسطینیوں اور اࣳن کے رشتہ داروں کو رہائش کے حقوق سے انکار، اور لاکھوں فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات دینے سے انکار۔

اؚن جرائم کے ارتکاب کے دوران ہونے والے بہت سی زیادتیوں مثال کے طور پر فلسطینیوں کو تعیمراتی اجازت نامے دینے سے انکار اور اجازت ناموں کی عدم موجودگی کے بہانے گھروں کی مسماری کو سلامتی کے نام پر کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مقبوضہ علاقے میں آبادی کے اندراج پر اسرائیل کی عارضی پابندی جو وہاں مقیم فلسطینی خاندانوں کے دوبارہ میلاپ اور غزہ کے باشندوں کی مغربی کنارے میں رہائش کی راہ میں حائل ہے، مظالم کی ایسی مثالیں ہیں جن کا ارتکاب سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے  مگر ان کا اصل مقصد علاقے کی آبادی میں ردوبدل کرنا ہے۔ تاہم کوئی اقدام چاہے سلامتی کے پیش نظر ہی کیوں نہ اٹھایا جائے اࣳس کی آڑ میں نسلی امتیاز یا جبر کو بالکل اࣳسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح کہ بےجا طاقت یا تشدد کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

''لاکھوں فلسطینیوں کو سلامتی سے متعلق کسی جائز جواز کے بغیر اࣳن کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا، محض اس وجہ سے کہ وہ یہودی نہیں بلکہ فلسطینی ہیں، صرف ظالمانہ قبضے کا معاملہ نہیں ہے۔''، روتھ نے کہا۔ ''یہ پالیسیاں جو یہودی اسرائیلیوں کو ایک جیسے حقوق نوازتی ہیں خواہ وہ کہیں بھی رہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہیں خواہ وہ کہیں بھی رہیں، ایک شناخت سے وابستہ لوگوں کی قیمت پر دوسری شناخت کے لوگوں کو برتر مقام دینے کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔''

2018 میں آئینی درجہ رکھنے والے قانون کی منظوری جس نے اسرائیل کو'' یہودی عوام کی قومی ریاست'' قرار دیا اور کئی دیگر قوانین جن کی بدولت مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کو اور زيادہ مراعات حاصل ہو گئی ہیں مگر اࣳن کا اطلاق اࣳسی علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں پر نہیں ہوتا، نیز حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی آبادکاری اور اس سے جڑے انفراسٹرکچر سمیت اسرائیلی حکام نے ماضی قریب میں کئی اقدامات اٹھائے اور بیانات دیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہودی اسرائیلیوں کے غلبے کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس امکان سے کہ مستقبل میں کوئی اسرائیلی رہنماء کسی دن فلسطینیوں کے ساتھ ایسا تعلق استوار کرسکتا ہے جس سے امتیازی نظام ختم ہو جائے گا، ہم آج اپنے سامنے موجود حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے۔

اسرائیلی حکام کو جبر اور امتیاز کی ایسی تمام اقسام کو ترک کرنا ہو گا جن کی وجہ سے یہودی اسرائیلیوں کو فلسطینیوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اور اؚس حوالے سے نقل و حرکت کی آزادی، اراضی و وسائل کی تخصیص، پانی، بجلی اور دیگر سہولیات تک رسائی اور تعمیراتی اجازت ناموں جیسے معاملات میں برتا جانے والا امتیازی سلوک بھی ختم کرنا ہو گا۔ 

آئی سی سی کے استغاثہ دفتر کو تحقیقات کر کے ان عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے جو نسلی امتیاز اور ریاستی جبر جیسے جرائم میں ملوث ہیں کیونکہ یہ جرائم دراصل انسانیت کے خلاف جرم کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ مقتدر ریاستوں کو بھی عالمگیر دائرہ اختیار کے اصول کے تحت اپنے ملکی قوانین کی مطابقت میں یہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ دیگر ضروری کاروائیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی پابندیوں کی پالیسی اپناتے ہوئے ان جرائم میں ملوث ریاستی عہدیداروں پر سفری پابندیاں لگائیں اور ان کے اثاثے ضبط کریں۔

انسانیت کے خلاف جرائم کے شواہد سامنے آنے کے بعد عالمی برادری کو اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت پر فوری نظرثانی کرنی ہو گی اور ایسا نقطہ نظر اپنانا ہو گا جس کی بنیاد تعطل کے شکار ''امن عمل'' کی بجائے انسانی حقوق اور جوابدہی ہو۔ مقتدر ریاستوں کو اسرائیل و فلسطین میں منظّم امتیاز اور جبر کی تحقیقات کے لیے یواین انکوائری کمیشن قائم کرنا چاہیے، اور جبر و نسلی تفریق کے جرائم کی چھان بین کے لیے اقوامؚ متحدہ کا ایک عالمی نمائندہ چࣳننے کی ضرورت ہے جس کے پاس دنیا بھر میں جبر و نسلی امتیاز کے خلاف عالمی کاروائی کو متحرک کرنے کا اختیار ہو۔

مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اؚس شرط کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلؚ تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہیں ہیں، انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں، اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو اؚن سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔

'' اگرچہ عالمی برادری کی اکثریت اسرائیل کے نصف صدی پر محیط قبضے کو ایک عارضی صورتحال سمجھتی ہے اور پرامید ہے کہ کئی عشروں سے جاری 'امن عمل' جلد ہی اؚس مسئلے کو حل کر دے گا، مگر وہاں فلسطینیوں پر جبر اؚس حد تک پہنچ چکا ہے اور دوام اختیار کر گیا ہے کہ اسے اب نسلی امتیاز اور ریاستی جبر قرار دیا جا سکتا ہے۔''، روتھ نے کہا۔ ''وہ جو اسرائیل- فلسطین کے درمیان امن کے متمنّی ہیں، چاہے ایک یا دو ریاستوں کے قیام کی صورت میں یا کنفیڈریشن کے ذریعے، اࣳنہیں چاہیے کہ فی الوقت موجود حقیقت کو تسلیم کریں اور اس میں بہتری کے لیے انسانی حقوق سے جڑے ضروری اقدامات اٹھائیں۔''

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.