Skip to main content

ریاست ہائے متحدہ امریکہ

2019 میں پیش آنے والے واقعات

پناہ کے خواہشمند مہاجرین میٹامورس، میکسیکو میں ایل پونتے نیوو میں مہاجرین کے خیمے کے باہر رضاکاروں، وکیلوں، قانونی مشیروں اور ترجمانوں کے ہفتہ وار دورے کے دوران اپنے کاغذات سمیت صف باندھے کھڑے ہیں، 5 اکتوبر 2019۔ 

 

© 2019 ڈینس کیتھی/ براؤنزول ہیرالڈ بذریعہ اے پی

سال 2019 کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا انسانی حقوق کے حوالے سے تنزلی کا سفر جاری رہا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تارکین وطن کی غیرانسانی پالیسی متعارف کروائی اور غلط بیانیوں کو فروغ دیا جس نے نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو اور زیادہ مضبوط کیا؛ پڑے پیمانے کی حراست سے نبٹنے کے لیے مؤثر اقدام نہیں کیا؛ عورتوں، ہم جنس پرست عورتوں، ہم جنس پرست مروں، بین صنفی لوگوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کو نقصان پہنچایا؛ امریکیوں کی صحت کی سہولیات سے مستفید ہونے کی استعداد کمزور کی؛ اور صنعتوں کو بےضابطہ کیا جس سے عوام کی صحت و سلامتی خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔  

اپنی خارجہ پالیسی میں، ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے کم ہوتے ہوئے اثرورسوخ کو دنیا میں انسانی حقوق کے فروغ کے لیے بہت کم استعمال کیا؛ کثیر قومیتی اداروں کو نقصان پہنچانے کا سسلسلہ جاری رکھا؛ اور جابر حکومتوں کا ساتھی بن کر عالمی انسانی حقوق اور انسان دوست قانون کا کوئی خیال نہیں رکھا جبکہ اس نے اُن بعض افراد اور حکومتوں پر کوئی پابندی عائد نہ کی جو انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

تلسا، اوکلاہوما میں ظالمان پولسنگ نے سیاہ فام اور غریب لوگوں کو نشانہ بنایا جس کے باعث تمام برادریوں میں معیارؚ زندگی گرا۔

فوجداری نظامؚ قانون

یو ایس کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد دنیا کے دیگر ممالک سے زيادہ رہی۔ بیورو انصاف اعدادو شمار کے اب تک کے تازہ ترین دستیاب شدہ اعدادوشمار کے مطابق، 2017 میں 22 لاکھ افراد جیلوں میں تھے اور مزیدہ 45 لاکھ لوگ آزمائشی اور عارضی رہائی پر تھے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ قیدیوں کی تعداد 2016 سے 2017 کے دوران قیدیوں کی تعداد سے کچھ کم ہے اور سابقہ دہائی کی نسبت قیدیوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اس کمی کی جزوی وجہ پالیسی سازوں اور عوام میں بڑھتا ہوا یہ احساس ہے کہ یوایس کا فوجداری قانونی نظام غیرمنصفانہ ہے اور نقصان کا سبب بن رہا ہے، اور اس احساس نے ریاست کی سطح پر اصلاحات کو جنم دیا ہے۔ اس کے باوجود، کئی ریاستوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھی ہے، جیسا کہ عورت قیدیوں کی شرح بڑھی ہے جس میں 1980 سے 2017 کے دوران 750 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی سطح پر، 2018 کے اختتام پر پہلا قدم قانون کی منظوری کے بعد، جولائی میں 3,000 سے زائد لوگ جیل سے رہا ہوئے۔ قانون سازی کی بدولت انہیں اپنے مقررہ وقت سے پہلے رہائی ملی۔ اگرچہ اس پیش رفت کو دونوں جماعتوں کی کا ایک بنیادی فوجداری اصلاحی اقدام قرار دیا گیا ہے، مگر اؚس کے باوجود اؚس قانون نے کئی تحفظات کا ازالہ نہیں کیا اور وفاق کے قانونی نظام کے تحت قید لوگوں کی صرف معمولی سی تعداد پر اثرانداز ہوا ہے اور خود اس نظام کے تحت ریاست ہائے متحدہ میں قید لوگوں کا صرف تقریباً 10 فیصد پابند سلاسل ہیں۔    

جیل کی آبادی میں ابھی بھی بہت شدید سماجی تفاوت موجود ہے۔ اگرچہ قیدیوں کی مجموعی تعداد کم ہوئی ہے مگر سیاہ فام عورت قیدیوں کی تعداد سفید فام عورت قیدیوں سے دوگنا ہوئی ہے اور سیاہ فام مرد قیدیوں کی تعداد سفید فام مرد قیدیوں سے تقریباً چھ گنا زيادہ ہے۔

29 ریاستوں میں سزائے موت لاگو ہے۔ سزائے موت پر معلومات مرکز کے مطابق، وسط نومبر تک سات ریاستوں میں 20 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ وہ تمام لوگ ملک کے جنوب اور وسطی مغربی علاقے سے تھے۔ ٹیکساس میں آٹھ، الباما اور جارجیا میں تین، فلوریڈا اور ٹینیسی میں دو؛ اور میسوری اور جنوبی ڈکوٹا میں ایک ایک فرد کو پھانسی دی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 16 برس بعد جولائی میں وفاق میں پھانسیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا، مگر ایک وفاقی عدالت نے نومبر میں پھانسیوں کی دوبارہ شروعات پر پابندی عائد کر دی۔ کیلیفورنیا جہاں 730 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں، کے گورنر نے پھانسی پر عارضی پابندی عائد کی، اور نیو ہیمپشائر میں اپنا سزائے موت کا قانون منسوخ کیا۔   

جرائم کے الزامات دبے غریب لوگ جیلوں میں بدستور گل سڑ رہے ہیں کیونکہ عدالت ان کی رہائی کے عوض زر ضمانت جمع کروانے کا تقاضا کرتی ہیں جس کی بدولت لوگ بغیر کوئی جرم سرزد کیے لمبے عرصہ تک جیل میں رہتے ہیں اور اپنے ٹرائل کے منتظر رہتے ہیں جس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اس صورت حال کو خود پر تشدد تصور کر کے جرم کا اقرار کر لیتے ہیں۔ زر ضمانت کو منسوخ کرنے کی تحریک مضبوط ہو رہی ہے مگر کئی ریاستیں اسے خطرے کے تخمینے کے آلات سے بدل رہی ہیں جس سے امتیازی سلوک کی جڑیں اور مضبوط ہوں گی۔ نیویارک نے اپریل میں قبل از سماعت اصلاحی اقدامات کی منظوری دی جو زر ضمانت استعمال کر کے قبل از سماعت قیدیوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی کریں گے اور باقی ماندہ کے لیے باضابطہ قانونی کاروائی میں بہتری لائیں گے۔ یہ اقدامات جن کا اطلاق جنوری 2020 میں ہو گا خطرے کے تخمینے کے آلات کو لازمی نہیں سمجھتے۔

پورے یو ایس میں اب بھی فوجداری مقدمات میں سزا پانے والے افراد رائے دہی کا حق استعمال نہیں کر سکتے۔ 2018 میں فلوریڈا میں ووٹرز نے ایک اقدام کی منظوری دی اور یوں جرائم میں سزا پانے والے 14 لاکھ باشندوں کے حق رائے دہی بحال کیا مگر جولائی میں ریاست نے ایک قانون منظور کیا جس نے یہ شرط عائد کر دی کہ تمام متاثرہ لوگوں کو یہ حق بحال کروانے کے لیے تمام مالیاتی ذمہ داریاں بشمول بھاری جرمانے اور فیسیں ادا کرنا ہوں گی۔

 

 

 

فوجداری اور بچوں کے نظامؚ انصاف میں بچوں کی حالت

ہر ایک دن لگ بھگ 50,000 بچے قید کی حالت میں ہوتے ہیں۔ بچوں کے نظام انصاف میں، 2,200  نوعمر لڑکے ''حیثیت'' جرائم میں بند ہیں۔ اس جرم سے مراد ایسے غیرمجرمانہ افعال ہیں جو صرف اس وجہ سے قانون کی خلاف ورزی گردانے جاتے ہیں کہ یہ افعال کرنے والے لوگوں کی عمر 18 برس سے کم ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، تمام 50 ریاستیں بچوں پر بالغ افراد کے لیےقائم کی گئی فوجداری عدالتوں میں مقدمہ سازی کا سلسلہ جاری ہے۔ کمیٹی شہریاں برائے طفلان کے مطابق، 18 برس سے کم عمر اندازاً 32,000 بچوں کے مقدموں کو سماعت کے لیے بالغ افراد کی جیلوں میں پیش کیا جاتا ہے۔  سینٹینسنگ پراجیکٹ کے مطابق، 18 برس سے کم عمری میں جرائم سرزد کرنے پر لگ بھگ 1,300 افراد بؚلا پیرول عمرقید کی سزا بھگت رہے ہیں (ایل ڈبلیواو پی)۔  اوریگون نے جووینائل ایل ڈبلیواوپی کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون منظور کیا۔ تمام 22 ریاستیں اور ضلع کولمبیا میں اب بچوں کے لیے پیرول کے بغیر عمرقید پر پابندی ہے۔

سینٹینسنگ پراجیکٹ کا کہنا ہے کہ قانون کے ساتھ فرد کے تعلق کے ہر مرحلے پر نسلی تفاوت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، جس سے ملک بھر میں بچوں کے نظامؚ انصاف میں غیرسفید فام بچوں کی نمائندگی غیرموزوں ہے، 37 ریاستوں میں، سیاہ فام قیدی بچوں کی تعداد سفید فام قیدی بچوں سے زیادہ ہے۔   

نسلی انصاف اور پولسنگ

پوری ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دولت کا شدید تفاوت پایا جاتا ہے اور غربت جرم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جسے جواز بناتے ہوئے غریب، زیادہ تر اقلیتی آبادیوں میں شدید قسم کی پولیسنگ نظر آتی ہے۔ سہولیات، امداد اور معاشی ترقی کے ساتھ غربت کے مسائل بشمول بے گھری، ذہنی صحت، اور گینگ کی شمولیت پر قابو پانے  کی بجائے، یوایس کی کئی ریاستیں صرف پولیس کی تعداد میں اضافہ کرتی ہیں اور غریب برادریوں کو فی الواقعی '' مجرم'' بنا دیتی ہیں، اور اس طرح ایک ایسا گھناؤنا چکر وجود میں آ جاتا ہے جو جیل میں ڈالے جانے والے لوگوں کی تعداد میں بہت زيادہ اضافے کا سبب بنتا ہے۔  

پولیس تشدد پر نظر رکھنے کا سرکاری نظام بدستور نامکمل ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، پولیس اطلاعات کے مطابق 2019 میں وسط نومبر تک 783 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا، یہ تعداد پچھلے برس سے کم ہے۔ جن مارے جانے والوں کی نسل معلوم ہے ان میں سے 20 فیصد سیاہ فام تھے حالانکہ سیاہ فام آبادی کا 13 فیصد ہیں۔ پولیس تشدد، گرفتاریوں، طلبیوں اور ٹریفک پر روکنے جیسے اقدامات میں آپ کو نظر آئے گا کہ نسلی تفاوت جاری و ساری ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے شہر تلسا، اوکلاہوما میں ایک تحقیق کی جس سے معلوم ہوا کہ پولیسنگ کے عمل میں نسلی تفاوت بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ سیاہ فام شہریوں نے ایک طرح سے یک زبان ہو پولیس کے ناروا رویے کی شکایت کی۔

2019 میں اس احساس نے زور پکڑا کہ پولیسنگ، فوجداری انصاف اور امریکی زندگی کے دیگر شعبوں میں نسلی تفاوت کو سمجھنے کے لیے غلامی اور سماج پر اس کے جاری اثرات کو سمجھنا ناگزیر ہے۔ کانگریس نے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی یاد میں منائے جانے والے دن جون ٹینتھ پر ایک تاریخ سماعت کی جس کا مقصد ان خساروں کی تلافی کے لیے ممنکہ طریقوں بشمول تاوان اور سیاہ فام برادریوں میں سرمایہ کاری پر غور کرنا تھا تاکہ مروجہ عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا تدارک کیا جا سکے۔  

غربت اور عدم مساوات

ستمبر میں، مردم شماری بیورو نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ یوایس میں آمدنی کا فرق گذشتہ پانچ برسوں میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لگ بھگ چار کروڑ افراد غربت میں رہتے ہیں جن میں سے کئی ایسے کنبوں سے ہیں جن کا کم از کم ایک باروزگار فرد وفاقی سطح پرمعین کم از کم معاوضہ سات اعشاریہ 25 امریکی ڈالر فی گھنٹہ یا اس کے قریب تر کما رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے صحت کی سہولت تک رسائی کو محدود کرنے والے اقدامات جاری رکھے۔ میڈیکیڈ پروگرام، نجی بیمہ رعایتوں اور افورڈ ایبل کئیر ایکٹ کے دیگر حصوں میں تبدیلیاں کی گئیں جو صحت کی سہولیات تک رسائی میں بڑی ہاہمواریوں کو جنم دیں گی۔ کئی ریاستوں نے وفاق کی معاونت سے میڈیکیڈ کے اہل بننے کے لیے کم آمدنی والے افراد کے لیے کام کار کی شرائط، منیشات کے معائنے اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔

عدالت کے عائد شدہ جرمانے اور فیسیں غریب اور غیرسفید فام لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ اگر کوئی فرد انہیں ادا نہیں کر سکتا تو انہیں گرفتاری کے پروانے، توسیع شدہ سزاؤں، اور قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ مزید مقروض ہو جاتے ہیں۔ کئی مقامی اتھارٹیز اپنے فنڈز کا بندوبست اس قسم کی فیسوں سے کرتی ہیں یہاں تک کہ لاپروائی سے چلنے جیسی معمولی غلطیوں کے لیے بھی جو کہ ایک ایسا طرزؚ عمل ہے جو غیرضروری پولیسؚنگ اور جارجانہ مقدمہ سازی کو فروغ دیتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے قرض خواہوں اور ظالمانہ قرض محصلین جن کی بےضابطہ سہولیات لوگوں کو غربت میں دھکیل سکتی ہیں، سے صارفین کی حفاظت کو گزند پہنچانے کا عمل جاری رکھا۔ صارف مالیاتی تحفظ بیورو نے بہت زيادہ سود لینے والے پے ڈے اور دیگر چھوٹے قرض خواہوں کو باضابطہ کرنے کے لیے درکار ایک ضابطے کے اطلاق میں تاخیر کی۔ ایک اور مجوزہ ضابطہ غلط، دھوکہ باز، اور گمراہ کن قرض محصلین سے تحفظ کو کمزور کرے گا۔

غیرشہریوں کے حقوق

امریکی حکومت نے 2019 میں بھی مہاجرین کے حوالے سے وہ ذمہ داریاں انجام نہیں دیں جو اس پر عالمی قانون کے تحت عائد ہیں جس کے باعث کئی مہاجرین غیرمحفوظ حالت میں ہیں۔ جنوری میں، انتظامیہ نے پناہ کے متلاشی کئی لوگوں کو واپس میکسیکو بھیج دیا جبکہ '' میسیکو میں رہو'' پروگرام کے نام سے معروف تارکین وطن تحفظ پروٹوکولز کے تحت ان کے دعوے ابھی زیرغور ہیں۔

اس رپورٹ کے مرتب ہونے وقت، پناہ کے خواہاں 55,000  لوگوں کو خطرناک اور ناقابلؚ گزر حالات میں واپس میکسیکو بھیجا گیا اور ان کو قانونی نمائندگی اور منصفانہ سماعت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ ان میں ایسے مہاجرین بھی تھے جو معذوریوں کا یا دیگر پرانے جسمانی مسائل کا شکار تھے۔ یہ اؚس ابتدائی ہدایت کے باجود کیا گیا کہ '' صحت کے جانے پہچانے جسمانی/ذہنی مسائل'' والے کسی بھی فرد کو اؚس پروگرام میں نہیں رکھا جائے گا۔ سیوداد جوریز شہر میں ہیومن رائٹس واچ نے ایسے چھ افراد کے کیسز قلمبند کیے جن میں سے چار بچے تھے۔

جولائی میں، انتظامیہ نے ان افراد کی پناہ لینے کی اہلیت پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک عارضی ضابطے کا اطلاق کیا جو تیسرے ملک کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور اور اس ملک میں تحفظ کی درخواست دائر کیے بغیر یوایس میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ضابطہ یوایس کی جنوبی سرحد پر میکیسکنز کے علاوہ باقی سب کو پناہ کی درخواست دینے سے روکتا ہے۔ 

یوایس نے ملک میں داخلے کی جنوبی بندرگاہوں پر قبول شدہ درخواست گزاروں کی تعداد کو محدود کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے باعث بعض لوگوں نے غیرقانونی طریقے سے سرحد عبور کرنے کی کوشش کر کے اپنی زندگیاں خطرات میں ڈالیں۔

جولائی میں، انتظامیہ نے ایک نئے ضابطے کا اعلان بھی کیا جس نے ملک کے کسی بھی حصے میں رہنے والے ایسے افراد کو فوری ملک بدری کے تابع کر دیا جو یوایس میں کم از کم دو برس تک اپنی موجودگی کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔ اس سے پناہ کے متلاشی اور مہاجرین نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔

یوایس- میکسیکو سرحد پر آنے والے تارک وطن بچوں کو بارڈر پیٹرول مراکز پر جیل سے مشابہ غیرانسانی حالات میں رکھا گیا جہاں اُنہیں کئی ہفتوں تک اپنے اہلؚ خانہ سے رابطے، نہانے دھونے کے بندوبست، صاف کپڑوں، دانت برش، باقاعدہ بستر یا صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں تھی۔ دو یا تین برس کے بچوں کو ان جگہوں پر کسی بالغ نگہبان کےبغیر رکھا گیا۔ خاندانوں اور بالغ افراد کو بھی 72 گھنٹے کی قانونی حد سے زائد عرصہ تک خطرناک حد تک زیادہ پرہجوم جگہوں پر رکھا گیا۔ 

یوایس کے اہلکاروں نے بچوں کو ان کے بالغ رشتہ داروں، اور بعض واقعات میں ان کے والدین سے الگ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک سرکاری نگران ایجنسی نے مشاہدہ کیا کہ والدین سے الگ کیے گئے بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ اس کے باوجود، ٹرمپ انتظامیہ نے ایک نیا ضابطے کا اعلان کیا ہے جو بچوں اور ان کے خاندانوں کو غیرمعینہ عرصے تک حراست میں رکھنے کی اجازت دے گا اور اس طرح شدید ذہنی دباؤ کا سبب بنے گا۔  

تین مہاجر بچے 2019 میں یوایس میں داخل ہونے کے کچھ دیر بعد ہی وفات پا گئے، 2018 میں تین بچوں کی اموات کے بعد، جو کہ ایک عشرے میں یوایس امیگریشن تحویل میں بچوں کی پہلی اموات تھیں۔ یوایس کسٹمز و بارڈر پروٹیکشن ( سی بی پی) کی تحویل میں کم از کم سات بالغ افراد مَرے؛ چھ بالغ افراد یوایس امیگریشن و کسٹمز انفورسمینٹ (آئی سی ای) ہلاک ہوئے۔ حراست میں ہونی والی ہلاکتوں کو ماضی میں یوایس کے حراستی مراکز میں صحت کی ناقص سہولیات سے جوڑا گیا ہے۔

آئی سی ای کی تحویل میں تارک وطن لوگوں کی تعداد فی دن کی ریکارڈ سطح تک پہنچی، حالانکہ سرکاری اطلاعات نے حکومتی حراستی معیارات کی سنگین پامالیوں کا انکشاف کیا ہے۔ بھوک ہڑتال کرنے والے کئی زيرحراست لوگوں کو جبری طور پر کھانا کھلایا گیا ایک ایسا طریقہ استعمال کر کے جو فطری لحاظ سے ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز ہے۔ 

اگست میں، اتنظامیہ نے ایک ضابطہ متعارف کیا جووفاقی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان تارکین وطن لوگوں کو مستقل رہائیش (گرین کارڈز) دینے سے انکار کرے جو میڈیکیڈ، کھانے کی مہریں، ہاؤسنگ ووچرز، یا سرکاری امداد کی کسی دوسری قسم  سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس سے ان سہولیات سے مستفید ہونے والے غیرشہری اب تک رسائی کرنے سے ڈر رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بارہا بڑے پیمانے کے چھاپوں کی دھممکیاں دی ہیں جس سے تارکین وطن برادریوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگست میں، یوایس امیگریشن حکام نے مسیسیپی میں غذا کی تیاری کے پلانٹ پر چھاپہ مار کر 698 افراد کو گرفتار کیا۔ یہ یوایس میں ایک دہائی میں کسی کام کی جگہ پر مارا جانے والا سب سے بڑا چھاپہ تھا۔ گوشت اور پولٹری کی صنعت میں کام کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کو شدید قسم کی زیادتیوں کا سامنا ہے مگر ملک بدری ک خوف سے بولنے سے ڈرتے ہیں۔ یوایس نے طویل عرصے سے مقیم لوگوں کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے خاندان کی فکر اور سماج کے ساتھ ان کے تعلقات یا ان کے ملکوں میں واپسی پر انہیں نقصان پہنچنے جیسے خدشے کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔

ان جاری و ساری زیادتیوں کے باوجود، کانگریس نے انتظامیہ کی ان درخواستوں کو منظور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا کہ  امیگریشن ایجنسیوں کو اضافی سرمایہ دیا جائے باوجود اس کے کہ اُن کے اصولوں، نگرانی اور شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے لاگو شرائط ناکافی تھیں۔

ماحولیاتی حقوق

ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے درجنوں اصولوں کو کمزور یا منسوخ کرنے کا کام جاری رکھا جو ماحول اور عوام کی صحت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جولائی میں، ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) نے کلورپیریفوس پر پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہ عصبی بافتوں کے لیے زہریلا جراثیم کش ہے جو ایجنسی کے سرمائے سے ہونے والے تحقیقات کے مطابق، بچوں کی نشوونما میں تاخیر کی ایک وجہ ہے۔ 

جولائی میں ہی، ای پی اے نے کوئلے کی راکھ کو کنٹرول کرنے والے ضوابط واپس لینے کی تجویز دی۔ کوئلے کی راکھ  کوئلہ جلنے سے پیدا ہونے والی ایک انتہائی  زہریلی چیز ہے جو یوایس میں دوسری سب سے بڑا فضلے کی ندی ہے۔ ضابطے میں تبدیلی سے فضائی و آبی آلودگی  بڑھے گی اور اس صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔

ستمبر میں، ٹرمپ انتظامیہ نے صاف پانی کا ایک بڑا ضابطہ منسوخ کیا جس نے ایسے آلودہ کیمیکلز کی حد مقرر کی تھی جنہیں ندیوں، گیلی زمینوں اور پانی کی دیگر شکلوں کے قریب استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ستمبر میں ہی، ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ گاڑیوں کے دھویں کے اخراج کے ضوابط جو کہ وفاقی معیارات سے سخت ہیں، طے کرنے کیلفیورنیا کا اختیار ختم کرے گی۔ اس سے کیلیفورنیا اور لگ بھک دو درجن ریاستوں نے دعویٰ دائر کرنے پر مجبور ہوئیں۔

یہ اقدامات ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ہونے والی جدجہد پر وسیع پیمانےپرہونے والے حملے کا حصہ تھے جن سے صنعتوں کی باضابطگی کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اور صحت و سلامتی کے خدشات بڑھے ہیں۔

عمر رسیدہ افراد کے حقوق

سارے یوایس میں نرسنگ سنٹرز وہاں قیام پذیر ذہنی خلل کا شکار لوگوں کے رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے انہیں اینٹی سائیکوٹک ادویات دی جاتی ہے اور یہ اکثر ان کی مکمل مرضی کے بغیر دی جاتی ہے۔ یہ برا طرزعمل بڑے پیمانے پر رائج ہے اور اسے ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک تصور کیا جا سکتا ہے مگر پھر بھی سنٹر فار میڈی کئیر و میڈیکیڈ سروسز(سی ایم ایس) نے ایسے اداروں کو مزید بے قاعدہ کرنے کی تجویز دی ہے۔

عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق

امریکہ کی ریاستوں میں صحت کے مروجہ نظام میں کئی عورتوں اور لڑکیوں کی طبی انشورنس نہیں اور اس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے جس میں مادرانہ اور زچگی کے باعث ہونے والے سرطان سے اموات  کا نشانہ بننے والی عورتوں کی تعداد دیگر دولت مند ممالک کے مقابلے میں زيادہ ہوتی ہے۔ 

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں تحریر ہے کہ میڈیکیڈ کی اہلیت کو وسیع کرنے میں الباما کی ناکامی کچھ دیگر پالیسیوں اور اقدامات  کے ساتھ مل کر کس طرح گردنی سرطان کی قابلؚ بچاؤ اموت کی بہت بڑی شرح کا موجب بنی جس کا سب سے زيادہ نشانہ ریاست کی سیاہ فام عورتیں بنیں۔  الباما، ٹیکساس کے ہمراہ، میں میڈیکیڈ اہلیت کی سطحیں سب سے کم ہیں، اور اب یہ ریاست دستبرداری کی خواہاں ہے جس سے اہلیت اور زيادہ مشکل ہو جائے گی۔

ٹرمپ انتظامیہ کا زبان بندی ضابطہ اگست میں لاگو ہوا جس کی رو سے وفاقی خاندانی منصوبہ بندی (عنوان ایکس) فنڈز لینے والے ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ عورتوں کو دستیاب حمل کے تمام مواقع کے متعلق معلومات نہ دیں۔ یہ ضابطہ ہر برس پندرہ لاکھ سے زائد کم آمدنی والی پندرہ لاکھ سے زائد عورتوں کو حمل اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے منصوبہ بند والدیت کو عنوان ایکس سے نکالنے کا سبب بنا ہے۔

 

 

 

 

اس ضابطے نے ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اور ضابطے سے پہنچنے والے نقصان کو بڑھا دیا ہے جو آجروں کو اجازت ہے کہ وہ افورڈ ایبل کئیر ایکٹ کی شرائط پر مذہبی یا اخلاقی اعتراضات کا دعوی کر کے چاہیں تو اپنے ملازموں کے صحت بیمہ میں مانع حمل سہولت شامل نہ کریں۔ نومبر میں ایک وفاقی جج نے ایک اور مجوزہ ضابطے کو نافذ ہونے سے روک دیا جو کہ صحت کی سہولت دینے والوں کی اس صلاحیت کو ڈرامائی طور پر بڑھا دے گا کہ وہ جنسی صحت کی سہولیات کی غرض سے آنے والی عورتوں سمیت مریضوں کو مذہبی یا اخلاقی اعتراضات کی بنیاد پر واپس بھیج سکیں گے۔

چند ایک ریاستوں نے عورتوں کو صحت کی سہولیات پہنچانے میں بہت زیادہ تندہی کا مظاہرہ کیا مگر زیادہ تر ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندیاں عائد کرنے کا رجحان تھا۔ الاباما نے ایک ظالمانہ قانون منظور کیا جس نے اسقاط حمل اور اسقاط حمل کی کوشش کو جرم قرار دیا ہے اور جنسی تشدد کے متاثرین کو استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔ اکتوبر مین، ایک نچلی عدالت نے قانون کے اطلاق کو روکنے کے لیے ایک ابتدائی حکمنامہ جاری کیا۔

ڈیلاویئر اور نیوجرسی نے 18 برس سے کم عمری کی تمام شادیوں پر پابندی عائد کی ہے، اور کئی ریاستیں پابندی کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہیں مگر 48 ریاستوں میں بچوں کی شادی اب بھی کسی نہ کسی شکل میں قانونی ہے۔

جنسی رجحان اور صنفی شناخت  

جنوری میں، عدالت عظمی نے ٹرمپ انتظامیہ کو فوج میں خواجہ سراؤں کی بھرتی پر پابندی کی اجازت  دی جبکہ مقدمے کا تصفیہ ہونا باقی ہے۔ محکمہ صحت و انسانی سہولیات نے مئی میں ایک اصول تجویز کیا جو اسے صنف کی بنیاد پر امتیاز کی اور تنگ تعریف طے کرنے کی اجازت دے گا، اور اس طرح بیمہ کرنے والے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں کو خواجہ سراء مریضوں کے ساتھ امتیاز برتنے کی اجازت مل جائے گی۔ اس رپورٹ کے مرتب کرتے وقت، 2019 میں امریکہ میں کم از کم 22 خواجہ سراء قتل کیے جا چکے تھے۔

ایوان نمائندگان نے عورتوں کے خلاف تشدد ایکٹ پر دوبارہ قانون سازی کی حمایت کی۔ قانون میں تشدد کے زندہ متاثرین ایل جی بی ٹی کے حوالے سے دفعات شامل ہیں۔ ایوان نے مساوات قانون بھی منظور کیا جو کئی وفاقی شہریتی حقوق قوانین کے تحت جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر ہونے والے امتیاز کی ممانعت کرتا ہے۔ سینٹ نے کسی بھی مسودہ قانون پر رائے دہی نہیں کی۔

ایل جی بی ٹی لوگوں کے لیے ریاستی سطح پر موجود حفاظتی انتظامات ناہموار ہیں۔ اس رپورٹ کے تحریر ہونے تک، صرف 20 ریاستوں میں روزگار، رہائشی سہولیات اور سرکاری قیام گاہوں کے شعبوں میں جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی واضح ممانعت والے قوانین موجود تھے۔

کڑی نگرانی اور تحفظ

یوایس کے پاس قومی کوائف کے تحفظ کے جامع قوانین کی کمی ہے بشمول وہ قوانین جو قانون کے نفاذ کے اداروں کو ذاتی کوائف تک غیرضروری اور غیرمتناسب رسائی سے روکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2018 کی رپورٹ کےعنوان،''متوازی تعمیر'' کے غیرتسلیم شدہ عمل کے ذریعے، حکومت کڑی نگرانی کے خفیہ پروگراموں سے اکٹھے کیے گئے کوائف فوجداری تحقیقات میں استعمال کرنے کے قابل ہوئی ہے، اور پھر اس شہادت کو دیگر طریقوں سے دوبارہ تعمیر کرتی ہے جبکہ ججوں یا مدعاعلیان کو خفیہ نگرانی کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔

اگست میں، ٹرمپ انتظامیہ نے کانکریس کو یوایس اے حب الوطنی ایکٹ کی دفعہ 215 کی تجدید کرنے کے لیے کہا۔ اس دفعہ نے قومی سلامتی ایجنسی (این ایس اے) کو کروڑوں امریکی ٹیلی فون ریکارڈز کو اکٹھا کرنے، ذخیرہ کرنے اور ڈھونڈنے کا اختیار دیا تھا جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ قومی انٹیلیجنس (ڈی این آئی) کے اُس وقت کے ڈائریکٹر نے کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں اعتراف کیا تھا کہ این ایس اے نے اس پروگرام کو دیرینہ قانونی و فنی مشکلات کی وجہ سے معطل کر دیا تھا اور ماضی میں ذخیرہ کیے گئے کوائف حذف کر دیے تھے۔ اس کے باوجود، ڈی این آئی نے دلیل دی کہ کانگریس کو بڑے پیمانے پر کڑی نگرانی کی اجازت دینے والی اس دفعہ کو قانون کا حصہ رہنے دینا چاہیے تاکہ مستقبل میں اسے استعمال کیا جا سکے۔ کانگریس کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے قانون نے دسبمر 2019 میں ختم ہو جانا تھا۔

 اظہار کی آزادی

صدر ٹرمپ 2019 میں پورا سال ذرائع ابلاغ کو حملون کا نشانہ بناتے رہے، انہیں دیگر کے علاوہ، ''عوام کا دشمن'' اور '' گھٹیا'' جیسے القابات سے نوازا۔ ان حملوں نے نہ صرف ذرائع ابلاغ پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ دیگر لوگوں پر تشدد کے خطرات کو بھی بڑھایا۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ پر جاسوسی ایکٹ کے تحت فوجداری فردؚ جرم پبلک کرنے پر  صحافیوں میں بڑے پیمانے پر صحافیوں میں فکر کی لہر دوڑ گئی کہ حکومت مخصوص معلومات نشر کرنے پر ذرائع ابلاغ کے خلاف قانونی کاروائی کر سکتی ہے چاہے معلومات کا نشر کرنا عوام کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس قسم کی قانونی کاروائیاں ذرائع ابلاغ کی آزادی کو متاثر کریں گی اور عوام کے معلومات کے حق کو نقصان پہنچائیں گی۔

افشاء ہونے والی ایک حکومتی دستاویز میں دکھایا گیا ہے کہ سی بی سی نے صحافیوں، کارکنوں اور دیگر لوگوں کی ایک فہرست بنائی ہوئی تھی جو ملک کی جنوبی سرحد پر امیگریشن کے مسائل پر کام کر رہے تھے؛ ان میں سے بعض افراد نے کہا کہ جب وہ سرحد عبور کر رہے تھے تو اہلکاروں نے ان سے اضافی سوالات کیے، اور اس طرح ان سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جنہیں آزادانہ اظہار کے حق کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔

قومی سلامتی

سفید رنگ کی برتری، سامی مخالف جذبات اور عورتوں کے خلاف آراء کی ترجمانی کرنے والے مردوں نے 2019 میں لوگوں کو گولیوں سے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایل پاسو، ٹیکساس میں، اطلاعات کے مطابق ایک نسل پرست متن کی آن لائن پوسٹنگ کے بعد 22 لوگ مارے گئے اور 27 زخمی ہوئے۔ کیلیفورنیا میں، ایک شخص نے مبینہ طور پر سائناگوج میں ایک عورت کو قتل اور تین لوگوں کو زخمی کیا۔ اوہیو کے علاقے ڈیٹن میں، ایک آدمی نے جو اطلاعات کے مطابق عورتوں کے خلاف دھمکی آمیز رویے کی تاریخ رکھتا تھا، نے نو افراد کو قتل اور 27 کو زخمی کیا۔

اس طرح کے واقعات میں فائرنگ کرنے والوں کو لوگوں کو مارنے کے لیے فوجی طرز کے اسلحے تک رسائی تھی جس سے ایسے وفاقی قوانین کے لیے عوامی حمایت بڑھی ہے جو بندوقوں تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔

گذشتہ دہائی میں، خاص کر 2016 کے بعد سے سفید فام نسل پرست حملوں میں اضافے اور ان شواہد کے باوجود کہ بعض مجرمان اُبھرتی ہوئی بین الملکی سفید فام نسل پرست تحریک کا حصہ ہیں، امریکی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے ان حملوں کی روک تھام کے لیے بہت کم وسا‏ئل مختص کیے بنسبت ان حملوں کے جو اسلام کی انتہاپسند تشریح کی بدولت ہو سکتے ہیں۔ ستمبر مین محکمہ داخلہ سلامتی نے سفید فام نسل پرست تشدد کو پہلی مرتبہ اپنی ترجیحاتی خطرات کی فہرست مین شامل کیا۔ یہ فہرسست 11 ستمبر، 2011 کے حملوں کے بعد مرتب کی گئی تھی۔

امریکہ نے گوانتانامو بے میں 31 لوگوں کو بغیر کسی الزام کے غیرمعینہ مدت تک بند رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، وہ سب ایک دہائی سے زائد عرصہ سے قید ہیں، بعض 2002 سے۔ استغاثہ نے گوانتانامو بے کے فوجی کمشینوں کے سامنے سات افراد پر بدستور دہشت گردی سے متعلقہ الزامات لگا رہے ہیں، پانچ کو کو 11 ستمبر، 2001 کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔ یہ فوجی کمشین شفاف سماعت کے عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتے اور قواعدوضوابط کے مسا‏ئل اور برسوں کی تاخیر جیسے مسا‏‏ئل کا بھی شکار ہیں۔ کمیشنوں کے سامنے سزا پانے والے دو افراد بھی گوانتانامو بے میں ہیں۔ ایک عمرقید کی سزا بھگت رہا ہے جبکہ دوسرا سزا کا منتظر ہے۔

خارجہ پالیسی

2019 میں،صدر ٹرمپ نے دوطرفہ ملاقاتوں میں جابر حکمرانوں کی سرعام تعریف کرتے رہے اور انسانی حقوق کے تحفظات سے گریز کرتے رہے۔ وہ فروری اور جون میں جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان کے ہمراہ شمالی کوریا کے رہنماء کؚم جونگ اُن سے ملے۔ اپریل میں انہوں نے وائٹ ہاؤس میں مصری صدر عبدلفتح السیسی کی میزبانی کی اور اگست میں جی7 کے اجلاس کے موقع پر ان سے ایک بار پھر ملے جہاں انہوں نے اطلاعات کے مطابق سسیسی کو اپنا ''پسندیدہ آمر'' قرار دیا۔ میں میں، ٹرمپ نے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان جو کہ وائٹ ہاؤس کے دورے پر تھے، کو کہا کہ وہ '' بہت شاندار کام'' کر رہے ہیں۔ ستمبر میں ٹرمپ ہوسٹن میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو ملے، اور نومبر میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی میزبانی کی جہاں انہوں نے ان حکومتوں کے انسانی حقوق کے بگڑتے ہوئی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی بجائے ان کی پالیسیوں کے گیت گائے۔ 

ٹرمپ انتظامیہ نے چینی حکومت کے بعض مظالم کی بارہا مذمت کی، خاص طور پر مذہبی آزادی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی اور اکتوبر میں زنجیانگ پبلک سیکیورٹی بیورو، دیگر سرکاری ایجنسیوں، اور آٹھ چینی ٹیکنالوجی فرموں، بشمول آئی فلائٹیک اور ہکوژن کو اپنی پابندیوں والی فہرست میں شامل کیا۔ مگر صدر شی جن پنگ کی قیادت کی تعریف کر کے ٹرمپ نے ان کاشوں کو نقصان سے دوچار کیا۔

اپریل میں، آئی سی سی پراسیکیوٹر نے تصدیق کی کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اُس کا ویزا منسوخ کیا جس کی وجہ  افغانستان میں امریکی افواج کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم پر اُس کی تحقیقات ہیں۔

اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مارچ میں انسانی حقوق کی ملکی رپورٹ جاری کی جو کہ ایک سالانہ رپورٹ ہے۔ رپورٹ میں عورتوں کے تولیدی حقوق بشمول دوران زچگی قابل بچاؤ اموات امتناع حمل تک رسائی کےبارے میں معلومات کو ایک بار رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مارچ میں صدر ٹرمپ نے ایک باضابطہ اعلامیے پر دستخط کیے جن کے تحت اسرائیل کے زیرقبضہ گولن ہائٹس کو اسرائیل کی ریاست کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ یہ عمل ان تحفظات کے منافی کیا گیا جوانسان دوست عالمی قانون کے تحت گولن ہائٹس کے باشندوں کو حاصل ہیں۔ نومبر میں، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ اس کا اب یہ خیال نہیں رہا کہ اسرائیلی نوآبادیاں '' بذات خود'' انسانیت دوست عالمی قانون کی خلاف ورزی ہیں، اور اس طرح ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس معاملے پر عالمی اتفاق رائے کا حصہ نہیں رہا۔   

اپریل میں، امریکہ نے مسلح کشیدگی میں جنسی تشدد پر یواین سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسترد کرنے کی دھمکی دی کیونکہ اس میں عورتوں کی تولیدی صحت کی سہولیات کا ذکر تھا۔چونکہ امریکہ نے ایسی زبان قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جو تسلیم کرے کہ جنگ میں ریپ کے متاثرین کو جنسی و تولیدی صحت کی سہولیات تک رسائی ہونی چاہیے، قرارداد کو بالآخراس کے بغیر ہی منظور کیا گیا۔  

جون میں، ٹرمپ انتظامیہ نے میکیسکو کے سامان پر محصول لگانے کی دھمکی دی جس کا مقصد میکسیکو پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ امیگریشن کے نفاذ میں غیرمعمولی اضافے پر تیار ہو اور ایک ظالمانہ واپسی پروگرام کے تحت پناہ کے خواہشمند غیرمیکسیکن باشندوں کو امریکہ سے واپس میکسیکو لینے پر آمادہ ہو۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے معاہدے بھی کیے کہ وہ پناہ کے خواہشمند افراد کو ہنڈراس، ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا بھیج سکے حالانکہ ان ممالک میں امن عامہ کی حالت اچھی نہیں اور تحفظ کے نظام مؤثر نہیں ہیں۔ ستمبر میں، امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اس برس 18,000 مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دے گی جو کہ گذشتہ چار عشروں کے دوران کسی ایک برس میں امریکہ میں پناہ لینے والے مہاجرین کی سب سے کم ترین تعداد ہو گی۔  

سعودی عرب کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ٹرمپ انتظامیہ کی سرزنش کرتے ہوئے، جون میں انتظامیہ کے ہنگامی اختیار پر پابندی کی منظوری دی۔ ہنگامی اختیار کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کوسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کو آٹھ ارب امریکی ڈالر مالیت کا اسلحے کی فروخت مکمل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ تاہم، ٹرمپ نے قرارداد کو مسترد کر دیا اور اسلحے کی فروخت کے عمل کو آگے بڑھنے کی اجازت مل گئی۔

امریکہ نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور بدعنوانی کے مجرموں پر امریکی ویزا کی پابندی اور ان کے اثاثے منجمد کرنے کا کام جاری رکھا۔ جولائی میں، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمر کی نسل کشی کی مہم میں شمولیت پر کئی غیرملکی سنیئر فوجی کمانڈرز پر امریکی ویزا کی پابندی عائد کی۔

جولائی میں ہی، وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کمیشن برائےناقابلؚ تنسیخ حقوق کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا مقصد '' امریکی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کے کردار پر باخبر نظرثانی'' کرنا ہے۔ 

ایران کے ساتھ مشترکہ جامع لائحہ عمل کے نام سے ہونے والے ایٹمی معاہدے کی 2018 میں امریکی تنسیخ کے بعد، امریکہ نے ایران پر پھر لمبی چوڑی پابندیاں عائد کر دیں اور ایران کے ساتھ لین دین کرنے والی کمپنیوں کے لیے سزاؤں کا اعلان کیا۔ اپریل میں امریکہ نے ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا، اور ستمبر میں آئی آر جی سی کی مدد پر امریکہ نے سنٹرل بینک، ایران پر پابندیاں لگائیں۔ اکتوبر میں، ہیومن رائٹس واچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ پابندیاں ایرانی شہریوں کے صحت کی ضروریات کو بہت زیادہ متاثر کر رہی ہیں۔ 

اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ٹرمپ انتظامیہ کی میکسیکو سٹی پالیسی یا '' عالمی زبان بندی اصول'' پر دوسری نظرثانی کا اجراء کرنے میں ناکام رہا جس کا بڑی مدت سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ یہ پالیسی امریکہ سے بار سرگرم ان غیرسرکاری تنظیموں کی وفاقی فنڈنگ پر پابندی لگاتی ہے جو اسقاط حمل کی مشاورت کا کام کرتی ہیں یا ایسے کیسز کو متعلقہ اداروں کو منتقل کرتی ہیں یا اسقاط حمل کو قانونی قرار دینے کا یہ سہولت بڑھانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مارچ میں، پومپیو نے اعلان کیا کہ اس اصول کو ان تنظیموں کے خلاف اور سخت طریقے سے تعبیر کیا جائے گا جو زیادہ تر چھوٹی، نچلےسطح پر کام کرنے والی اور غیرملکی ہیں۔

امریکہ نے یمن اور صومالیہ سمیت دیگر ممالک میں مشتبہ دہشت گردوں کو نشانہ بنا کر مارے کا کام جاری رکھا۔ ان میں سے کئی کو مسلح ڈرون حملوں میں مارا گیا۔ اس نے غیرریاستی مسلح گروہوں بشمول افغانستان میں طالبان اور عراق وشام میں دولتؚ اسلامیہ پر بڑے فوجی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مئی میں، محکمہ دفاع نے بتایا کہ 2018 میں عراق، شام، افغانستان اور صومالیہ میں امریکی فوجی کے حملوں میں 120 شہری مارے گئے اور لگ بھگ 65 شہری زخمی ہوئے مگر یمن اور لیبیا میں امریکی کاروائیوں میں کوئی شہری نہیں مارا گیا۔ ایسے واقعات پر نظر رکھنے والے آزاد اداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان، عراق، شام، صومالیہ، یمن اور لیبیا میں امریکی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو محکمہ دفاع نے بتائی ہے۔ امریکہ نے سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کی مہلک کاروائیوں سے کسی شہری کے مارے جانے کی کوئی اطلاع منظرعام پر نہیں لائی۔

 پورا سال، امریکہ طالبان قیادت کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا۔ جن کی شرط یہ تھی کہ امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی اور طالبان افغانستان سے کسی مسلح تنظیم کو امریکہ پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم، ٹرمپ نے  ستمبر کو امریکی مذاکرات ختم کرد یے اور یوں مزید بات چیت کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کیا۔

افغانستان میں امریکی فضائی حملے ریکارڈ ساز سطح پر پہنچے۔ جنوری سے ستمبر کے دوران افغانستان پر 8,000 بم اور میزائل گرائے گئے جن میں 800 سے زائد شہری ہلاک اور زخمی ہوئے جن میں سے 250 بچے تھے۔ اندازا امریکی سپاہی افغانستان میں تھے جن میں جنگی کاروائیوں میں حصہ لینے والی امریکی خصوصی افواج بھی شامل ہیں۔ سی آئی اے کی حمایت یافتہ افغان نیم فوجی دستے جو باقاعدہ کمان کے نظام سے باہر ہیں، نے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں اور لوگوں کو اٹھا کر غائب کیا ہے۔